اقبال کا فلسفہ خودی
ہر انسان کی زندگی میں ایک دور ایسا ضرور آتا ہے جب اس کے دل میں ایک قسم کی غیر شعوری خلش پیدا ہوجاتی ہے ایک خلا پیدا ہو جاتی ہے- بہت سے سوالات پیدا ہو جاتے ہیں اور تسلی بخش جواب نہ پا کر کبھی خاموش ہو جاتے ہیں، کبھی زندگی کو تار تار کر جھنجوڑ ڈالتے ہیں- -ان سوالات کی شدّت کسی کے یہاں کم ہوتی ہے کسی کے یہاں زیادہ - کوئی انسان اس سے آسانی سے نجات پا لیتا ہیں ور کوئی زندگی بھر ان سے دامن نہی چھوڑا سکتا-
میری زندگی مے بھی ایک ایسا دور آیا- بیسیوں سوالات دل مے پیدا ہو گئے- اس کائنات کا بنانے والا کون ہے؟ کائنات کیوں بنائی گئی؟ یہ حقیقت ہے یا محض نظر کا دھوکا؟ کائنات مے انسان کی کیا حشیت ہیں؟ انسان اپنے اعمال مے مختا رہے یا مجبور؟ اگر انسان نائب خدا ہے تو اسے گمراہ کرنے کے لئے شیطان کو پیدا کیوں کیا گیا ؟ جنّت ور دوزخ کیا ہے؟ نیکی ور بدی کے کیا معنی ہے؟ بعد ازمرگ کوئی زندگی ہوگی یا نہی ہوگی؟ اگر ہوگی تو اس کی نوعیت کیا ہوگی؟ خالق اور مخلوق کا کیا تعلّق ہے؟ وغیرہ - وغیرہ
لیکن ایک چیز تو یقینی واقعی ہے جس مے شک قطعی نا ممکن ہے - اور وہ خود میرا شک کرنا، سوچنا اور فکر کرنا ہے- یہ تو ایک متضاد بات ہوگی کے جو چیز سوچی جا رہی ہے وہ سوچنے کی حالت مے موجود ہی نا ہو- سوچنے نا شک کرنے کے لئے ایک سوچنے والی، شک کرنے والی ذات ک اھونا ضروری ہے- شک کرنے کے معنی سوچنے اور سوچنے کے معنی ہونے کے ہیں- میں سوچتا ہوں اس لئے میں ہوں- میرے اس سوچنے سے یا شابت ہوتا ہے کے اور کچھ موجود ہو یا نا ہو میری خودی، میری ذات کا وجود تو قطان ہے-
Philosophy of Iqbal, Allama Iqbal, Muhammad Iqbal, Khudi, Philosophy of Khudi.